Most romantic novel: Wheshat e Dill



وحشتِ_دل

ازقلم_راحیلہ_خان

قسط ۱

"پری اٹھو یار جانا نہیں ہے کیا دیر ہو رہی ہمیں اور تم ہو کہ روز چیخ چیخ کر اٹھانا پڑتا پورا ہوسٹل سنتا ہے میری آوازیں کہ محترمہ پری بیگم کو جگایا جا رہا ہے۔۔"پلوشہ اٹھ کر اپنے بالوں کا جوڑا بناتی ساتھ ساتھ پری کو اٹھانے کی تگو دو بھی جاری رکھی ہوئی تھی۔۔

"اوں ہوں چپ کر جاؤ سونے دو صبح صبح ریڈیو آن کر دیتی ہو ۔۔"پری کروٹ بدل کر پھر سے سونے لگی۔۔۔

"شکر کرو ریڈیو پاس ہے جوکہ بروقت اٹھا دیتا ہے۔۔۔اٹھو اب کوئی سوال جواب نہیں ۔۔۔"

وہ پلو زور سے اس کی جانب پھینک کر واشروم بند ہو گئی۔۔ 

"بھاڑ میں جاؤ  تم کمینی عورت "پری غصے سے چیخی۔۔۔

"تمہیں بھی ساتھ لے کر جاؤں گی بے بی "پلوشہ کی آواز آئ۔۔۔

اور پری مٹھیاں بھینچ کر رہ گئی جو اس کی نیند خراب کر کے اب خود گنگنا رہی تھی۔۔۔

                           ♠♠♠♠♠♠♠♠♠♠

دنیا کے ٹاپ دس امیر ترین ملکوں میں شامل "ناروے "کے دارالحکومت  " اوسلو " شہر میں کئی ایکڑ اراضی کے وسیع وعریض رقبے پر پھیلا   "سلطان پیلس " پوری آب و تاب سے چمکتا ہوا زمین کے سینے پر تن کر کھڑا کسی بادشاہ کے قلعے کی طرح دور سے ہی دمکتا نظر آتا تھا ۔۔جو دیکھنے والو کو اپنی خوبصورتی اور اپنی چمک دمک سے ہی مبہوت کر دیتا کہ لوگ کئی کئی دیر تک اس کی خوبصورتی میں کھو کر سلطان پیلس میں بسنے والے شخص  پر رشک کرتے۔۔۔۔

سلطان پیلس اور اس میں بسنے والی شخصیت کو کون نہیں جانتا تھا۔۔جتنا خوبصورت وہ شخص تھا اس کی چیزیں بھی اسی کی طرح شاندار تھیں۔۔۔۔

سلطان پیلس کا بلیک کلر کا بہت بڑا سا ریموٹ کنٹرول گیٹ تھا جو کہ سپیشل انجینئر سے بنوایا گیا تھا  گیٹ  کے باہر ہی  نیم پلیٹ لگی تھی جس پر  نارویجن اور اردو زبان میں بڑے بڑے حروف سے سلطان پیلس لکھا ہوا تھا۔۔۔

جس طرح پیلس باہر سے خوبصورت تھا اندر سے اس سے بھی بڑھ کر  تھا۔۔گیٹ عبور کرتے ہی وسیع وعریض لان شروع ہو جاتا جس میں دنیا کے نایاب پھول تھے جو مختلف ملکوں سے منگوائے گئے تھے لان کے وسط میں بنا فوارا اور اس کے اردگرد  پر پھیلائے  ٹہلتے مور  اور دوسری طرف ایک چھوٹا سا بنا تالاب جس کے نیلے پانی میں بطخیں تیر رہیں تھیں ۔۔۔لان کے وسط میں طویل راہداری تھی جو کہ مختلف قسم کی ٹیلوں سے بنی تھی آگے جا کر یہ دو حصوں میں تقسیم ہو رہی تھی دائیں طرف سلطان ولا تھا اور بائیں جانب  پیلس تھا۔۔۔ولا اور پیلس کی بلڈنگ ایک جیسی تھی اوردونوں بلڈنگ ساتھ جڑی تھیں جس سے کسی بادشاہی قلعے  کا گمان ہوتا تھا۔۔۔  پیلس کے پورٹیکو میں دنیا کی مہنگی ترین گاڑیاں آگے پیچھے  لائن میں کھڑی تھیں ۔۔۔

سلطان ولا میں پورا ہوسپیٹل کا سٹاف موجود تھا جس میں دنیا کے نمبر ون ڈاکٹر اس وقت ایک بڑے سے روم میں وینٹی لیٹر پر پڑے وجود کا معائینہ کر کے رپورٹ تیار کر رہے تھے۔۔۔

اسی کمرے میں اضطرابی کیفیت میں کھڑا ونڈو کی جانب  رخ کیے بلیک تھری پیس میں لمبا چوڑا ورزشی جسامت والا  التمش اسید سلطان ڈاکٹر کی جانب دیکھے بغیر ان کے جواب کا منتظر کھڑا تھا۔۔۔

مسٹر سلطان ۔۔۔۔

وہ تیزی سے پلٹا تھا کہ بیچینی صاف عیاں تھی ۔۔۔

کمرے میں موجود ڈاکٹر اور نرسز نے  اس کی پھرتی دیکھی تھی ۔۔۔۔پر ہمیشہ کی طرح نظریں اس کے وجہی چہرے پر جم سی گئیں تھیں ۔۔۔

چھ فٹ سے نکلتا قد کسرتی جسم چوڑے بازو  سرخ و سفید رنگت  گہری نیلی آنکھوں کے وسط میں چھایا ہلکا ییلو کلر جیسے نیلے پانی پر تیرتا سن فلور ، اس پر گھنی پلکیں، مغرور ناک ،ہلکی ہلکی بیرڈ گھنی مونچھوں تلے گلابی لب پیوست کیے خوبصورت اور ایٹیٹیوڈ سے بھرے نقوش لیے وہ سنجیدگی سے ان کے بولنے کا منتظر تھا جو سر تا پیر اس کا جائزہ لینے میں مصروف تھے ۔۔۔

اس کے چہرے کے نقوش جو کہ ہمہ وقت تنے رہتے تھے  اتنے خوبصورت تھے کہ رب نے بڑی فرصت سے اسے بنایا تھا سب سے بڑھ کر اس کی آنکھیں تھیں جو کشش سے بھرپور مقناطیسی حثیت رکھتی تھیں  حسن التمش اسید سلطان پر آکر ختم ہو جاتا تھا وہ شخص جتنا خوبصورت تھا قسمت نے اتنا ہی برا کھیل کھیلا تھا۔۔


"بولیں ڈاکٹر"۔۔۔اس کی رعب دار  گھمبیر بیچینی چھلکاتی آواز گونجی ۔۔۔

"آپ کی سسٹر کی طبیعت پہلے سے بگڑ رہی ہے" ۔۔۔ڈاکٹر پاکستانی تھا اس لیے اردو بول رہا تھا جبکہ باقی سب خاموش کھڑے تھے ۔۔۔


اسید سلطان کا سانس رک سا گیا تھا۔۔دل کو جیسے کسی نے مٹھی میں جکڑا تھا۔۔چہرے پر اک سایہ سا لہرایا تھا۔۔۔

اس نے میکانکی انداز میں گردن گھما کر مشینوں میں جکڑی اپنی شہزادی کو دیکھا تھا اور پھر ڈاکٹر کو ۔۔۔

یکدمم اس کی آنکھوں میں ناگواریت چھائ تھی ۔۔۔

اور چہرے کے تاثرات حددرجہ پتھریلے ہوئے تھے۔۔۔


"آپ کو کس لیے بلایا گیا ہے یہاں "  انداز خالصتاً دو ٹوک تھا۔۔

"علاج کرنے کے لیے "ڈاکٹر اپنے ماتھے پر آیا پسینا صاف کرتے بولا ۔۔

وہ خبطی تھا کیا پتا اسے پیٹنا ہی نا شروع کردے یہی سوچ آتے ہی ڈاکٹر کے پیسنے چھوٹ گئے۔۔۔


"تو علاج شروع کریں پر ایک بات یاد رکھیں آپ ،میری آپی کو کچھ نہیں۔ ہونا چاہیے کچھ بھی نہیں ، ورنہ کہرام مچا دوں گا آپ کے گھروں میں اس پوری دنیا کو آگ لگا دوں گا۔۔۔"

اوشن بلوری آنکھوں والا سمندر کو اپنی آنکھوں کی لپیٹ میں لیے اس پر ستم آنکھوں میں پڑے سرخ ڈورے ،وحشت بھری دل کو مٹھی میں جکڑ لینے والی سرسراتی آواز میں دھاڑا تھا کہ وہاں موجود سب نفوس سہم گئے تھے ۔۔۔

وہ اپنی سنا کر پلٹا اور نہایت عقیدت بھرا بوسہ وینٹی لیٹر پر کومہ میں  پڑے وجود کی پیشانی پر ثبت کیا۔۔


"جلدی ٹھیک ہو جائیں  آپکا سلطان مر رہا ہے اسے ضرورت ہے آپکی ، "اس نے ضبط سے  بھاری آواز میں  سرگوشی کی اور  اپنا برفیلا ہاتھ اس کے سر پر رکھا ۔۔اس وجود میں کوئی جنبش نا ہوئ پر وہ اپنے شہزادے کی سرگوشی میں چھپی بے بسی اچھے سے جانتی تھی ۔۔اس کی بائیں آنکھ سے آنسوں نکل کر بالوں میں جذب ہوگیا تھا۔۔

وہ پیچھے ہوا اور ڈاکٹر کو دیکھا جس کی آنکھیں حیرت کی زیادتی سے پھیل چکیں تھیں کہ وہ التمش اسید سلطان کی آنکھوں کو دیکھ کر خوف زدہ ہو گیا تھا جو پوری سرخ ہو چکیں تھیں۔۔۔لال آنکھوں کے وسط میں چمکتا نیلا نگینہ،

شدید غصے کی وجہ سے اس کی آنکھیں یوں ہو جاتی تھی ۔۔التمش ڈاکٹرز کو دیکھ کرمغرور چال چلتا دروازے تک پہنچا ۔۔۔


"یور ٹائم اسٹارٹ ناؤ"

وہ لمحہ بھر کو رکا اور بغیر پلٹے ان کو وقت کا احساس دلاتا تیزی سے وہاں سے نکلتا چلا گیا۔۔۔


                            ♠♠♠♠♠♠♠♠♠♠


احتشام لغاری آفس میں بیٹھا کسی ضروری میٹینگ میں مصروف تھا جب اس کا خاص ماتحت فون لے کر آیا۔۔۔

احتشام لغاری مسکرا دیا۔۔۔

جانتا تھا فون پر ہستی کون ہے۔۔۔

کسی کو بھی اجازت نا تھی کہ وہ میٹینگ کے دوران قدم بھی اندر رکھے پر ان کی بیٹی فون پر ہی ان کے ملازمین کو گھما کر رکھ دیتی اور ایسی ایسی دھمکیاں دیتی کہ وہ بیچارے فون لے کردوڑے چلے آتے۔۔۔۔

عرشمہ اکثر میٹینگ کے دوران ہی لغاری صاحب کو فون کرتی ۔۔۔۔

اور احتشام لغاری غصہ ہونے کی بجائے مسکرا دیتے وہ جانتے تھے عرشمہ جان بوجھ کر صرف تنگ کرنے کے لیے ایسا کرتی ہے ۔۔۔۔۔

ابھی وہ ایکسکیوز کر کے اٹھا اور میٹنگ روم سے ملحقہ روم میں آیا۔۔۔

"بابا"۔۔۔۔۔ سپیکر نسے چہکتی آواز گونجی۔۔۔


"یس مائ ڈول۔۔۔"

"میں واپس آرہی ہوں ۔۔۔" اس نے پختہ عزم سے کہا کہ احتشام لغاری کے چہرے پر پریشانی چھلک پڑی تھی ۔۔۔۔


"خبردار ڈول اگر ایسا سوچا بھی تو کچھ عرصہ وہیں رہو جب تک مجھے یقین نہیں ہو جاتا کہ وہ لڑکا واقعی مر چکا ہے " احتشام لغاری غصے سے بولا ۔۔۔


"بابا آپ کو کتنی بار کہا ہے کہ اس کا میرے سامنے ذکر مت کیا کریں" ۔۔۔وہ قاتل مر چکا ہوگا، آپ اس کا نام لے کر مجھے اس کی یاد مت دلایا کریں بہت مشکل سے میں نے خود کو سنبھالا ہے۔اور اب میں اس کی وجہ سے اپنے گھر سے دور نہیں رہوں گی پہلے ہی اس کی وجہ سے بہت سال میں نے گھر سے باہر گزاریں ہیں" عرشمہ دو ٹوک انداز میں بولی۔۔۔۔

جبکہ پرائم منسٹر احتشام لغاری کا ذہن اس کے لفظ واپس آنے پر الجھا گیا تھا۔۔

"عرشمہ " اس نے پکارا ۔۔۔

"نو ڈیڈ اب اور نہیں کب تک میں چھپ کر رہوں گی " کہتے ہی وہ کال بند کر چکی تھی۔۔۔

جبکہ احتشام لغاری پریشان سا کرسی پر ڈھ سا گیا ۔۔


                          ♠♠♠♠♠♠♠♠♠♠♠


وہ اپنے کمرے میں ملگجا سا اندھیرا کیے راکنگ چیئر پر بیٹھا جبکہ اوشن بلیو آنکھیں موندی ہوئیں تھیں  اس کا خاص ماتحت ہاتھ باندھے پاس کھڑا تھا۔۔


وہ ڈاکٹر کی خبر کا انتطار کر رہا تھا اس کے اندر ایک اشتعال برپا تھا دل اور دماغ میں جنگ چھڑ چکی تھی ۔۔دماغ کی رگیں پھولیں ہوئیں تھیں ۔۔پچھلے چار گھنٹے سے وہ اسی جگہ اسی طرح بیٹھا پل پل خود کو مرتا اور زندہ ہوتا محسوس کرتا ۔۔۔

دل سے دعا نکل رہی تھی جبکہ لب ساکت تھے اس نے نجانے کتنے گھنٹوں سے  ایک بوند پانی بھی اپنے حلق سے نا گزاری۔۔۔۔

وہ اضطرابی کیفیت میں مبتلا تھا کہ کچھ دیر مزید انتظار کے بعد ڈاکٹر نے نوید سنائی کہ وہ اب سٹیبل کنڈیشن میں ہے ۔۔۔

التمش کا دل سجدہ ریز ہوا تھا۔۔۔


"ڈیلن تم جاؤ۔" 

وہ نارویجین زبان میں ڈیلن کو حکم دیتا آہستہ آواز میں بولا۔۔۔

ڈیلن سر ہلاتا کمرے سے نکل گیا ۔۔۔۔

التمش اسید سلطان کو روشنی پسند نہیں۔ تھی جب اسکا دل اندر سے ویران بنجر اور اندھیرے میں ڈوبا ہوا تھا تو باہر کی روشنی کیسے پسند آ سکتی تھی۔۔۔۔


التمش اٹھا اور رفتہ رفتہ ڈریسنگ روم کی جانب آیا ۔۔۔

التمش سفید شلوار قمیض نکال کر واشروم بند ہو گیا ۔۔۔

اس کا سارا کام ڈیلن کرتا تھا۔۔۔ملازمہ کو اجازت نا تھی کہ وہ اس کے کسی کام کو بھی ہاتھ لگائے ۔۔۔اور نا ہی ڈیلن کرنے دیتا تھا۔۔۔۔

التمش اسید سلطان کچھ دیر میں فریش ہو کر باہر آیا ۔۔۔

سفید شلوار قمیض میں ملبوس وہ سرخ و سفید شہزادہ انتہا کا خوبصورت لگ رہا تھا اس نے کبرڈ سے سفید ٹوپی نکالی اور جائے نماز بچھا کر نوافل کی نیت باندھے اللہ تعالیٰ کے سامنے عاجزانہ نظریں جھکائے سر جھکائے پوری دلجمعی سے اللہ تعالیٰ سے ہم کلام ہوتا شکر ادا کر رہا تھا ۔۔۔۔

اس کی آپی  میں التمش کی جان بستی تھی اس کی آپی ہی اس کے لیے ساری دنیا تھی نجانے کب سے وہ اللہ تعالیٰ کے سامنے گڑگڑا کر اپنی آپی کی صحت یابی کی دعائیں مانگتا تھا ۔۔۔۔اور آج بھی اس کے مکمل ٹھیک ہونے کے لیے اللہ کے سامنے ہاتھ اٹھائے بیٹھا تھا ۔۔۔۔

جسے ڈاکٹروں نے جواب دے دیا تھا کہ وہ محض چند دن کی مہمان ہے پر یہ معجزا ہی تھا کہ اتنے سال بعد بھی زندہ تھی اور اس میں التمش اسید سلطان کی دعاؤں کا اثر تھا پر امتحان ابھی باقی تھا ۔۔۔جس میں التمش کو آزمایا جا رہا تھا ۔۔۔لیکن اسے امید تھی کہ وہ اس امتحان کو پار کرکے گا اور اس میں اللہ اس کا ساتھ دے گا جس نے ڈالا ہے مدد بھی وہی کرے گا اسے امید تھی یقین کامل تھا کہ ایک نا ایک دن اس کی آپی ٹھیک ہو جائے گی بس وہ دن بھی جلد آنے والا تھا ۔۔۔

اس کی آنکھ سے ایک آنسوں ٹوٹا ۔۔۔پھر دوسرا ۔۔۔۔تیسرا ۔۔۔اور پھر آنسوؤں کی جھری لگ گئی تھی ۔۔۔۔

اسے اللہ کے سامنے رونا بہت پسند تھا ۔۔۔

وہ روتا تھا بے تحاشہ بغیر کچھ کہے بس ہاتھ اٹھائے لب پیوست ہوتے اور آنکھوں سے اشک رواں ہوتے ۔۔۔

 وہ کچھ نہیں کہتا تھا اس کے لب نہیں ہلتے تھے جب وہ جائے نماز پر ہوتا  تو اس کا دل کپکپا جاتا تھا آنکھیں کھولنے کی ہمت نہیں ہوتی تھی نا لب ہلتے خاموش ہاتھ اٹھائے سر جھکائے  بیٹھا ہوتا پر اس کا دل اللّٰہ سے بولتا ۔۔۔۔

اس کا دل ہمکلام ہوتا اور ابھی بھی تو دل ہی بول رہا تھا ۔۔۔

اسے ناکردہ گناہوں کی سزا دی گئی تھی اپنی محرم اپنی شریک حیات کے سامنے اس کا کردار بدکردار ٹھہرایا گیا تھا۔۔۔

اسے رسوا کیا گیا تھا ۔۔۔

اور پھر اس کی بیوی کو اس سے چھین لیا گیا اسے دور کر دیا گیا ۔۔جسے وہ بچپن سے عشق کرنے لگا تھا جب تو اسے محبت ، عشق کا علم تک نہیں تھا وہ بچا ان جزبوں کو بغیر نام دیے بس اپنی چھوٹی سی بیوی کا خیال رکھتا جان سے بڑھ کر اس کی حفاظت زمہ داری تھی اس کی۔۔۔

اسی کے سامنے اس کا کردار تباہ کرکے دور بہت دور کر دیا تھا ۔۔۔اور اس کی آپی اس کا کیا قصور تھا۔۔۔۔

اللہ تو اپنے بندے کے دل کی ہر بات جانتا ہے کیسے نا جانتا التمش اسید سلطان کتنی تکلیف میں ہے اسے کیا کچھ برداشت کرنا پڑا اور کیا کچھ کرنا پڑے گا پر یہ اس کا امتحان تھا اللّٰہ نے اس کی ہمت دیکھنا تھی اس کا صبر دیکھنا تھا اور بےشک امتحان میں وہ اپنے نیک بندوں کو ہی ڈالتا ہے ۔۔۔

التمش آنسوؤں سے تر چہرہ لیے اٹھا اور جائے نماز کو لپیٹ کر اس کی جگہ رکھ کر ریک سے قرآن پاک اٹھا کر اسے سینے سے لگائے بیڈ پر آیا اور پوری توجہ سے تلاوت پڑھنا شروع کردی جبکہ دروازے کے باہر کھڑا ڈیلن سرور سے آنکھیں موند گیا اور دروازے سے سر ٹکائے تلاوت سننے لگا ۔۔۔۔

                                 ♠♠♠♠♠♠♠


 بیٹا جی کیا ہوا آپ کیوں رو رہا ہے۔۔آپ کو روتے دیکھ ام سے رہا نہیں گیا اس لیے پوچھ لیا۔۔۔" گل خان نے بیک ویو مرر سے اپنی مالکن کو روتا دیکھ کر استفسار کیا۔۔۔۔


"کچھ نہیں چچا بس ایسے دل کیا۔۔۔"نائلہ آنسوں صاف کرتے بولی۔۔۔اور جلدی سے آنسوں صاف کیے۔۔۔۔


"چچا آپ کا کوئی جاننے والا لڑکا ہے جو عرشمہ کی عمر کا ہو یا اس سے تھوڑا بڑا ہوجو ہر وقت اس کے ساتھ رہے اس کی حفاظت کرے "نائلہ نے ڈرائیور سے کہا جو ان کا بہت پرانا ملازم تھا ۔۔۔

اسے ڈر تھا کہ جو وہ سوچ رہی یا جیسی اس کو دھمکی دی ہے کہیں وہ سچ نا ہو جائے اس کی حفاظت ضروری تھی۔۔۔

" امارا نظر میں کوئی نہیں جو بی بی کی حفاظت کر سکے پر امارا بیٹا ہے جو عرشمہ بی بی سے تھوڑا بڑا ہے۔۔۔"گل خان نے سوچ کر جواب دیا۔۔۔


"کیا چچا آپ کا بیٹا" نائلہ اپنی سیٹ سے صحیح ہوکر بیٹھتی حیرانگی سے بولی۔۔۔۔

"جی امارا بیٹا بہت منتوں مرادوں سے اللہ سے لیا ہے ۔۔۔" ادھیڑ عمر کا گل خان خوشی سے بولا۔۔۔

"چچا آپ اس کو یہاں لے آؤ اب سے وہ عرشمہ کے ساتھ سکول جائے گا اس کا خیال رکھے گا اس کی فیس سب کچھ میں دیکھ لوں گی ۔۔۔"نائلہ کچھ سوچ کر  حتمی انداز میں بولی۔۔۔۔

"ٹھیک ہے بیٹا ام کل لے آئے گا "۔۔۔گل خان نے سر فوراً سے سر ہلایا۔۔۔۔

جاری ہے ۔۔۔


 

Post a Comment

0 Comments